یوم شہادت غازی علم الدین شہید*

 👈 *یوم شہادت غازی علم الدین شہید* 👉




31 اکتوبر 1929...

غازی علم دین شہید وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے جسے تاروز قیامت ہمیشہ عاشق رسول صلی اللہ و علیہ وسلم کے لقب سے یاد کیا جائے گا.


آپ نے گستاخ رسول کو جہنم و اصل کر کے یہ پیغام دے دیا کہ جب جب ہمارے نبی کی شان میں کوئی گستاخی کرے گا تب تب کوئی غازی علم دین شہید غازی  جیسے عاشق رسول پیدا ہوتے رہے گے ۔


غازی علم دین 8 ذیقعدہ 1366ءبمطابق 4 دسمبر 1908ءکو کوچہ چابک سوارں لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھر میں پیدا ہوئے۔ جو بڑھئی (یعنی لکڑی)کا کام کرتے تھے۔ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے۔ جن کا اپنے علاقے کے جانے پہچانے کاریگروں میں شمار ہوتا تھا۔۔ وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے۔ ایک بیٹا پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کرنے لگا، اور ایک دوسرا بیٹا محمد امین والد کے ساتھ لکڑی کے کام پر ہی رہا، اور علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی. 


تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اس فن میں ہی اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی.1928 میں آپ کوہاٹ منتفل ہو گئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا.


1927 میں لاہور کے ایک ناشر شیطان صفت "راجپال" نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ایک دل آزارکتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا.


مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سےاس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا. تو مجسٹریٹ نے ناشر "راجپال" کو صرف چھ ماہ قید کی سزا پر ہی اکتفا کیا۔ جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں مزيد اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا.


 انگریز حکومت کی عدم توجہی سے مایوس ہو کر مسلمانوں نےمتعدد جلسے جلوس منعقد کئے.مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا.مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ جان گۓ کہ اس ملعون کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا.


اسی دوران لاہور کے ایک غازی خدابخش نے24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا، تاہم وہ خبیث بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا. غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی.


 اسی طرح ایک اور مرد مجاہد گھر سے کفن باندھ کر نکلا، جو افغانستان کا ایک غازی عبدالعزیز تھا، جس نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کارخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو ہی راجپال سمجھ کر ٹھکانے لگا دیا. غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی. راج پال ان دو حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا. حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا.


اخبارات چیختے چلاّتے رہے، راجپال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جلسے ہوتے جلوس نکلتے، لیکن حکومت اور عدل وانصاف کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ مسلمان دلبرداشتہ تو ہوئے لیکن سرگرم عمل رہے۔ دلّی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی۔


 علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلّی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راجپال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر میں ایک اور مقرر آئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے۔ یہ علم دین کی اپنی زبان تھی۔ تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے، اور وہ واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریرکا ذکر کیا۔ انہوںنے بھی تائید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے والے کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے۔


وہ اپنے دوست "شیدے" سے ملے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکر کرتے۔ لیکن پتہ نہیں چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے؟ کہاں ہے اُس کی دکان؟ اورکیا ہے اس کا حلیہ؟ شیدے کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے۔ علم دین اس کی تحقیق پر لگ گیا، جس کیلیۓ اس نے بہت سے لوگون سے پوچھا، اور جلسے جلوسوں میں ہونی والی تقاریر سنی، بعد از یقین اک رات اس کا دل بہت پسیجا، جہاں پھر ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ”تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔“ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔

دونوں ہی کو بزرگ نے "راجپال" کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین

ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے، معلوم ہوا کہ راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک میں ہے، آپ وہاں گے، تو معلوم ہوا، راجپال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔ آپ نے انتظار کیا اور پھر اتنے میں وہ خبیث ایک بجے دوپہر پہنچ گیا، جسے کار سے نکلنے والے کے بارے میں کھوکھے والے نے بتایاکہ یہی راجپال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے۔ وہ دفتر میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لیے ٹیلی فون کرنے ہی والا تھا کہ علم دین دفترکے اندر داخل ہوئے۔


راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا، کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔اور آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا ”اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آ جاؤ۔“ راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے پلک جھپکتے میں ہی چھری نکالی، اور ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے ہاۓ کی آواز ہی نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔

اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا. آپ اس واقعہ کے بعدناصرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی. آپ نے اس کاروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی. علم دین کے گھر والوں کو خبر ہوئی تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتہ چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیتے ہوۓ ان کا سر فخرسے بلندکر دیا ہے


غازی علم الدین کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کرکے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا.آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی1929 کو سزائے موت کا حکم سنایا. 


مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لئے شہرہ آفاق وکیل جناب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو نامزد کیا گیا. چنانچہ محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ بمبئی سے لاہور تشریف لائے جن کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی


7جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا، جسے اپیل کے بعد 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے دو ججوں نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا. اور غازی کی اپیل خارج کردی. اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی علم دین کو ملی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا. بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیۓ ہزار ابدی سکون وراحت ہے" 


مسلمانوں عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی .اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زیر نگرانی ہی تیار کیا گیا. مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی اس نے بھی  23 اکتوبر 1929 کو اپیل کو رد کردیا.


 راجپال کے  قتل کی جزا کے طور پر 31 اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں عمل درآمد کیا گیا۔


31 اکتوبر 1929 کو غازی علم دین نے حسب معمول تہجد کی نماز ادا کی ..

اور بارگاہ الہی میں دعا گو تھے کہ بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور قدموں کی آواز کمرے کے سامنے آ کر رک گئی ..

غازی علم دین نے ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملے کو اپنا منتظر پایا ..

اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں   سے شدت جذبات سے آنسو بہ نکلے ..

آپ نے اس سے کہا گواہ رہنا میری آخری خواہش کیا تھی ..

آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی .. اتنی جلدی آخر کس لئے تھی ..

آپ اٹھے آگے بڑھے .

دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھا ..

مجسٹریٹ سے کہا چلئے دیر نا کیجئے ..

اور اس کے ساتھ لمبے لمبے قدم اٹھاتے تختہ دار کی جناب روانہ ہو گئے ..

ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہووے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا جواباً  اس نے نعرہ رسالت بلند کیا 

تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ  جیل کے سبھی قیدی علم دین کو مبارک باد دینے کے لئے ساری رات سے جاگ رہے ہیں ..


فضا کلمہ شہادت کے ورد سے گونج رہی تھی ..آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر سیاہ لباس پہنایا گیا .. آخری خواہش پوچھی گئی .

فرمایا ..

پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں ..

بعد ازاں ان کے پاؤں باندھ دیے گئے ..

آپ نے ارد گرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا ..

تم گواہ رہو میں نے حرمت رسولؐ  کے لئے راجپال کو قتل کیا ..

اور گواہ رہنا میں عشق رسولؐ  میں کلمہ شہادت پڑھتے ہووے جان دے رہا ہوں ..

آپ نے بلند آواز کلمہ شہادت پڑھا ..

رسن دار کو بوسہ دیا ..

آپ کے گلے میں رسا ڈال دیا گیا ..

مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوااور ایک خفیف سے اشارے کے ساتھ تختہ ان کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ لیا گیا ..

چند لمحوں میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔اس نے آپکو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نا دی ..

ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کی لاش کو اتارا گیا ..


     تختہ دار بنانا تو کوئی بات نہیں

     نعرہ حق کی کوئی اور سزا دی جائے 

..

غازی صاحب کا پہلا نماز جنازہ جو کہ میانوالی میں پڑھا گیا۔ مولوی غلام مصطفیٰ زادے خیل نے پڑھایا اسکے بعد شورش ہونے کی وجہ سے میانوالی جیل کے پاس قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ میانوالی کا وہ قبرستان جس کو غازی کا پہلا مدفن ہونے کا اعزاز ہے اس میں آج بھی ایک خالی قبر موجود ہے اس قبر میں غازی علم الدین شہید نے 31 اکتوبر 1929 سے 14 نومبر 1929 تک آرام فرمایا تھا۔ اس کے علاؤہ غازی صاحب کی میت بذریعہ ریل گاڑی میانوالی سے لاہور لے جائی گئی۔ جس میں گورکھا فوجی تھے صرف ایک سویلین موجود تھا گاڑی میں جس نے غازی صاحب کی میت لاہور علامہ اقبال کے حوالے کی ۔ وہ سویلین محمد اکبر خان خنکی خیل تھے) 


 آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں ہی رکھا، اور مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی. اور 4 نومبر 1929 کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد( جن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا. گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے . مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔


13 نومبر 1929 کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا. 


غازی کی قبر جب دوبارہ لاھور لے جانے کے لئے کھودی گئی تھی تو کسی اوزار کا استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔میانوالی کے مستری نور دین نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے 14 نومبر 1929 کو وہ قبر دوبارہ کھولی تھی ۔دو ہفتے بعد بھی جسم تروتازہ تھا اور خوشبو سے میانوالی مہک رہا تھا۔

موقع پر موجود معمار نور دین کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا، اور لاش بالکل صحیح وسالم تھی. چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی. 


14 نومبر کو ان کی نعش ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر لائی گئی جہاں اس کو ایک تیار کردہ خاص بکس میں محفوظ کر لیا گیا ..


اسپیشل ٹرین نے میانوالی ریلوے سٹیشن کو14 نومبر 1929  شام 4 بج کر 30 منٹ پہ چھوڑا تھا اور بنا کسی جگہ رکے 15 نومبر 1929 صبح 5 بج کر 35 منٹ پہ لاھور چھاونی میں بریک لگائی تھی ۔6 بج کر 45 منٹ پہ میت علامہ اقبال کے دستخط لے کر مسلمانوں کے حوالے کی گئی تھی ۔


ان کی نماز جنازہ چاردفعہ پڑھائی گئی ..

پہلی دفعہ مولانا شمس الدین خطیب جامع مسجد وزیر آباد ..

دوسری دفعہ سید دیدار علی شاہ .

تیسری دفعہ سید احمد شاہ اور چوتھی دفعہ پیر سید جماعت علی شاہ امیر ملت نے پڑھائی ..

اس موقع پر انہوں نے اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر روتے ہوے کہا 

"" تو سید زادہ ہے اور تیرے ہزاروں مرید ہیں لیکن ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا "" 

بعد ازاں انہوں نے مزار شریف کی تعمیر کروائی ..

جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ..

میّت کو مولانا سید دیدار علی شاہ اور علامہ محمّد اقبال نے اپنوں ہاتھوں سے لحد میں اتارا ..


اس موقع پر علامہ اقبال نے پنجابی میں کہا ..

"" اسی تے گلاں کردے رہ گئے تے درکھاناں دا منڈا بازی لے گیا "" 

( ہم تو باتیں کرتے رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا )


میّت جس چارپائی پر لائی گئی اس کے ساتھ لمبے بانس باندھے گئے تھے تا کہ زیادہ لوگ کندھا دے سکیں اور لاکھوں لوگوں نے کندھا دیا بھی مگر چند اصحاب نے پگڑیاں کھول کر ان کے ساتھ باندھ دیں تا کہ لوگ اس کو ہاتھ لگا کر کندھا دینے کی صورت پیدا کر سکیں ..


غازی صاحب کا مزار پاک لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب نزد چوبر جی چوک لاہور میں آج بھی مرجع خلائق ہے .مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے مزار بغیر چھت کے ہے. مزار کے مشرق میں غازی کے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرامگاہیں موجود ہیں. لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں۔


30 اور 31 اکتوبر کی درمیانی شب کو آپ کی برسی بڑ ی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اللّه تعالیٰ  ہم سب کو بھی غازی علم دین شہید جیسا عشق رسولؐ  عطا فرماے .آمین ..

علم دین 4 دسمبر 1907 کو پیدا ہوے اور 31 اکتوبر 1929 کو شہادت پائی۔انکی عمر محض 23 سال سے بھی کم بنتی ہے اور ایسا عشق رسول صلی الله علیہ وسلم ۔۔


علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو جب پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے موقعہ کی مناسبت سے کلام کا حکم دیا، تو آپ نے یہ تاریخی اشعار پیش کیۓ۔۔۔۔ جو آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہیں۔


نظر اللہ پہ رکھتا مسلمان غیور،

موت کیا شہ ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر


ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے جن کا خون حرم سے بڑھ کر،


آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں؟

حرف" لا تدعو مع اللہ الہ آخر"...

Post a Comment

If you have any doubts.please let me know

Previous Post Next Post